کسی کی ابتدا روشن کسی کی انتہا روشن مگر میری رہی ہے زندگانی ہر دفعہ روشن شمع تیرے مقدر میں لکھا ہے جلکے بجھنا ہی خدا رکھے جسے رہتی ہے
الیاس ناز
مہذب بات کرتے ہیں تو شیرینی ٹپکتی ہے ثمر جس میں لگا ہوتا ہے وہ ڈالی لچکتی ہے اجالے میں جو جیسا ہے نظر آتا ہے ویسا ہی تمہاری شخصیت
مجھ سے بچھڑ کے خوش نہیں غم کھا رہا ہے وہ اک بھول کرکے اب سدا پچھتا رہا ہے وہ کرتا تھا جو کہ شوخی شرارت سبھی جگہ آتے ہی
زمانے کی ہر چیز میں جو چھپا ہے وہ نورِ خدا ہے وہ نورِ خدا ہے یہ انسان حیواں چرندے پرندے وہی سبکا معبود سب اسکے بندے
سنجیدگی بھی لازمی ہے دل لگی کے بعد آتی ہے موت جیسے ہمیں زندگی کے بعد سورج اگے گا دن کا شبِ تیرگی کے بعد ہوگا اندھیرا شام کو پھر
در ہمیشہ کھلا ہوا رکھنا جاری ملنے کا سلسلہ رکھنا اہلِ باطل کے بیچ جو حق ہو بات کہنے کا حوصلہ رکھنا آندھیاں آئیں یا کہ طوفاں ہوں تم چراغِ