لمحہ لمحہ بکھر رہا ہوں میں جیسے قسطوں میں مر رہا ہوں میں سارے احباب ہیں خفا مجھ سے حق بیانی جو کر رہا ہوں میں
رفیق راہی مانگرول
قریبی رشتوں میں پیدا دراڑ کرتے رہے سیاسی لوگ تھے بہلا کے وار کرتے رہے وطن کے نام پہ ہم جا نثار کرتے رہے وہ ہم پہ پھر بھی کہاں
ردی کے ڈھیر میں تھے پڑے بے شمار خط میرا بھی اس میں ڈال دیا اب کی بار خط عہدے وفا کا خط انہیں موصول جب ہوا ہونٹوں سےچوما اور
اب شہر میں نہیں ہے کوئی قدر دان عشق آؤ چلو کہ گاؤں میں کھولیں دکان عشق کب تک کھلا رہے گا میرا گلستان عشق سب جھریوں میں ڈوب گئے
سارے صحافی ہو گئے سرکار کی طرف کیا خاک دیکھے ادمی اخبار کی طرف یہ ہے کرم خدا کا پہنچا دیا مجھے اس پار کے تھپڑوں نے اس پار کی