حاضر ہوں ترے در پہ یا رب تو بھلا کر دے یہ بوجھ گناہوں کا کندھوں سے جدا کر دے نہ مال کی چاہت ہے نہ گھر کی تمنا
مغیرہ حیدر
جو تم غمگین ہو جاؤ تو رب سے گفتگو کرنا بہاریں لوٹ آئیں گی خزاں میں جستجو کرنا سجاؤ خواب آنکھوں میں، یہ دل آراستہ رکھو ہٹے گا غار
تمنا ہے سرِمحشر، ہو چھایا خوف جب دل پر، غلاموں کے وہاں سرور، تری حاصل شفاعت ہو شبِ عصیاں کی ظلمت میں، گھٹن ماحولِ وحشت میں ہو آقا دید قسمت
حکم پہ کس کے ہوئے قائم زمین و آسماں کس کا سکہ چل رہا ہے کون حاکم ہے یہاں کون ہے ذاتِ نہاں، قدرت میں لیکن ہے عیاں کر رہا