سب کچھ یہاں فریب ہے یکسر فریب ہے دنیا میں جو بھی ہے وہ برابر فریب ہے مخفی ہے ایک سچ یہاں منظر کی اوٹ میں ظاہر جو دکھ رہا
بلال احمد
وہ نظر مجھ سے ملاتا ہے چلا جاتا ہے دل میں جذبات جگاتا ہے چلا جاتا ہے تیری دنیا کا تھکا ہارا مُسافر اک دن جسم کا بوجھ گراتا ہے
سامنے جس کے ہوا کرتی تھی ہر بات میں چپ جاتے جاتے وہ مجھے دے گیا سوغات میں چپ لوگ کرتے ہیں نئے شہر کو آباد مگر چھوڑ کے جاتے
اب تو نہ کوئی غم ہے نہ کوئی خوشی مجھے لے آئی کس مقام پہ یہ بےحسی مجھے پھیلا ہوا ہے چاروں طرف پر مرے سراب یہ لے کے آگئی
اغیار منافق تو کبھی یار منافق آئے ہیں مرے سامنے ہر بار منافق اُس قوم کا انجام تو معلوم ہے سب کو جس قوم کے لوگوں کا ہو سردار منافق