فانی دنیا سے پیار کر بیٹھے اس کو سر پر سوار کر بیٹھے تم محبت کیوں اس سے کرتے ہو؟ دل کو اپنے بیمار کر بیٹھے دھوکہ کھایا ہے اس
فکر آخرت کلام
فنا کا گھر ہے یہ دنیا مکاں نہیں میرا سدا کوئی بھی ٹھکانہ یہاں نہیں میرا پرایا گھر ہے اسے چھوڑ کر تو جانا ہے ہمیشہ رہنے کی خاطر جہاں
خوابِ غفلت سے نکل جا ایک دن مرنا بھی ہے اے مسلماں اب سنبھل جا ایک دن مرنا بھی ہے چار دن کی روشنی ہے پھر اندھیری رات ہے آج
اے غافل نہ غفلت میں یوں دن گزارو اگر موت آئے تو پھر کیا کروگے؟ اسی سرکشی میں نہ اب خود کو مارو اگر موت آئے تو پھر کیا کروگے؟
لگی ہے دوڑ یہ دھوکے کا گھر بنانے کی ہے کس کو فکر وہ آگے کا غم لگانے کی؟ مذاکرے ہی بھلا کر سبھی محافل سے یہ عادتیں ہیں اجل
کل رات خواب دیکھا گھربار کھو رہا تھا دو گز کے قید خانے میں قید ہورہا تھا ویران سا پڑا تھا ویران سے مکاں میں پُرہول سا سماں تھا
یہ دنیا ہماری تو بس اک سفر ہے سفر کرنے والوں کی منزل قبر ہے بظاہر تو مٹی ہے مدفن ہمارا مگر نار یا نور ہی ہے سراپا عمل پر